السلام علیکم! میرا نام عفان اقبال ہے ۔ میں آپ کے ”ماہنامہ عبقری “ کامستقل ممبر ہو ں ۔ آج میں اس رسالے کے ایک Topic ”جنات سے سچی ملا قاتیں “ کے حوالے سے ایک سچا واقعہ لکھ رہا ہو ں جو کہ میرے والد محترم کے ساتھ پیش آیا ۔یہ نو مبر 1997 ءکا ذکر ہے میرے والد (OGDC) کے سٹور آفیسر کی حیثیت سے سانگھڑ (صوبہ سندھ ) گئے تھے۔ ویسے وہ 1994 ءسے لیکر 2000 تک پاکستان کی مختلف علاقوں کی فیلڈوں پر رہے ہیں اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوا ہے ۔ یہ واقعہ نا قابل فرامو ش ہے ۔ ہوایو ں کہ میرے والد اپنی پارٹی کے ہمراہ گاڑی پر ڈرلنگ مشین کے پرزہ جات شہر لینے جا رہے تھے۔ راستہ کا فی ویران اور سرد تھا ۔دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی اور شہر خاصا دور تھا ۔ چلتے چلتے عشاءکا وقت ہو گیا کہ گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا۔اب دور دور تک کہیں پٹرول ملنے کی امید نہ تھی، وائرلیس سے فیلڈ پر رابطہ کیا تو ان کی گاڑیاں مو جو د نہیں تھیں کہ مدد کو پہنچتی ۔ میرے والد صاحب بڑے خوش مزاج انسان ہیں انہو ں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ” بھئی ! جو کچھ کھا نے کا ہے کھو لو اور رات ہمیں یہاں ہی گزارنی ہو گی کیونکہ صبح تک ہم کچھ نہیں کر سکیں گے ورنہ گاڑی کی طرح ہمارا بھی یہی حال ہوگا۔“
جو کچھ میسر تھا وہ سب نے تھوڑا تھوڑا کھا لیا ۔ رات کے تقریباً ساڑھے گیا رہ بجے کے قریب دو دراز قد آدمی نہ جانے کہاں سے نمودار ہو ئے ان کے ہا تھوں میں دستر خوان اور کچھ برتن تھے گاڑی کی ہیڈ لائٹس ڈرائیور نے آن کی کہ کہیں کو ئی ڈاکو تو نہیں آگئے ۔ گاڑی کی لا ئٹس بھی بڑی مدھم تھیں مگر پھر بھی کچھ فاصلے تک دیکھا جا سکتا تھا ان آدمیو ں نے پگڑیا ں باندھی تھیں اور اپنے منہ ڈھانکے ہوئے تھے ۔ انہو ں نے سب سے مخاطب ہو تے ہوئے کہا کہ آپ لو گ کہا ں سے آئے ہیں ؟ “ سب نے بتایا کہ ہم ” آئل اینڈ گیس کمپنی کے ملا زمین ہیں ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے لہذا رات ہم یہا ں ہی گزاریں گے ۔“ دونو ں آدمی کہنے لگے ” آپ لو گ ضرور بھوکے بھی ہو ں گے ؟“
سب نے بغیر جو اب دیئے سر ہلا یا ۔ چند سکینڈ وں میں انہو ں نے دستر خوان بچھا یا اور پلیٹیں رکھیں ۔ دوسرا آدمی سیکنڈز میں ایک بڑی دےگچی جس پر کپڑے میں لپٹے تافتان تھے لا کر سب کے سامنے رکھ دیے اور کہا کہ ” آپ کھا نا کھائیے برتن ہم ابھی لے جاتے ہیں ۔ “ سب نے اسے مدد خدا سمجھ کر کھا یا ۔ کھانے میں مرغی کا قورمہ تھا ۔ میرے والد کاکہنا ہے کہ ”ایسا لذیز کھا نا آج تک میں نے نہیں کھا یا ۔ “
سب نے اللہ کا شکر کر کے برتن کو دستر خوان سے باندھ کر ایک جگہ رکھا کہ وہ آدمی آگئے ۔ میرے والد سمیت سب نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ والد نے کہا کہ ”جب انہو ں نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں سر خ تھیں اور میںان سے ایک نظر نہیںملا سکتا تھا “تھوڑی دور سب نے انھیں جاتے دیکھا مگر اس کے بعد نہ جانے وہ کہا ں گئے ۔ صبح آفس کی گاڑیا ں آگئیں اور سب چل دیئے ۔ گاڑی کے ڈرائیور نے دیکھا کہ مٹی پر چند قدموں کے نشانا ت ہیں مگر آگے زمین بالکل صاف تھی بہر حال کسی نے پرواہ نہ کی اور کوئی میل کی دوری پر ایک چھوٹاسا گاﺅں آیا۔ سب وہاں رکے ان لوگوں سے پوچھا کہ آپ نے اتنا لذےذ کھا نا اتنی جلدی کیسے بھیجا ۔ پوچھنے پر وہا ں کے لو گو ں نے کہا کہ ” ہم تو غریب لو گ ہیں ہم آپ کو قورمہ اور تافتان کیسے کھلا سکتے ہیں ۔ ہمیں تو ایک وقت کی روٹی مل جائے تو بہت ہے۔ یہ کوئی اور ہی شے تھی جو کہ اللہ نے آپ کی مدد کو بھیجی ہو گی ۔
سب سمجھ گئے کہ یہ کوئی جنا ت تھے جو کہ حضرت خضربن کر ہماری مدد کو آئے اور نہ جانے کہا ں چلے گئے ۔ اس واقعے کو 9 سال گزر چکے ہیں لیکن یہ واقعہ والد صاحب اور ہمارے ذہن میںاس طر ح رچ گیا ہے جیسے آج ہی رونما ہوا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں